کیا عثمان بزدار وسیم اکرم بن پائے گئے؟
بادشمیم
ندیم اختر ندیم
ایک پریس کا نفرنس میں پی سی بی نے سر فراز احمد کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے اُسے ولڈ کپ تک کپتان بر قرار رکھنے کا دو ٹوک اعلان کیا ہے ۔اپنی بدزبانی کی وجہ سے سر فراز کو سر فراز نے کی سمجھ بہت سوں کو نہیں آرہی ہے اور بہت سے سیانے سمجھ چکے ہیں کہ نئی قیادت کے ساتھ چلنے والوں میں ایک اہم خوبی بدزبان ہونا بھی ہے ۔
ان کو اس موقع پر پی سی بی کے چےئرمین نے اپنے ساتھ بٹھاکے عزتوں کے ہار اس کے گلے میں ڈالتے ہوئے اس پہ بھر پور اعتماد کا اظہار کرنے کا اعلان کیا ہے ۔اس کے بعد جناب خان آف میانوالی خان اعظم جناب عمران خان صاحب نے اپنے دورہ لاہور کے موقع پر تخت لاہور پر اپنے نائب کو ہی برقرار رکھنے کا واضح اعلان کیا ہے ۔
بلکہ وہ اپنے کپتان کی طرح ہر حکم پریس سر کہنے کا سبق یاد کیے ہوئے ۔اقتدار روز روز نہیں ملتے ہیں ۔
بائیس سال سڑکوں پہ دھکے کھانے کے بعد اور پھر ساری پارٹیوں سے رینو کنے اکھٹے کرنے کے بعد بمشکل خان صاحب کو تخت نصیب ہوا ہے ۔
ہر بار کے بعد سلیکشن کمیٹی بد لوادی جاتی تھی ۔
پاکستان میں اگر کرکٹ ٹیم ہار جاتی تھی تو خان صاحب کہتے کہ یہ کیا بات کہ ملک کا وزیر اعظم کرکٹ ٹیم کے معاملات دیکھتا ہے ۔
نئی حکومت کے ساتھ ہی بورڈ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا۔نجم سیٹھی سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی محنت سے نہ صرف پی ایس ایل کو کامیابی سے چلا کے دکھادیا بلکہ دنیا کرکٹ کے کھلاڑیوں کو پاکستان کے سونے میدان آباد کرنے کی کامیاب کوششیں کرکے ثابت کر دیا کہ اگر کوئی نیک نیتی سے چاہیے تو ہر چیز ممکن ہے ۔
ایسا ہی کچھ منتخب کپتان وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کے ساتھ ہورہا ہے ۔نئی قیادت نے محترم عثمان بزدار کے ہاتھ پنجاب کی باگ ڈوردے کے جنوبی پنجاب کے دکھ کم کرنے کی بہترین کوشش کی تھی ۔
کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے ۔مسئلہ جنوبی پنجاب کے بندوں کو اقتدار میں بڑے عہدوں پر بٹھانا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام کو شعور دیا جائے کہ ان کے نمائندے ان میں سے ہی ہوں ۔
میرا خیال ہے کہ بالکل بھی نہیں ۔تحریک انصاف اپنے اقتدار کے مزے لوٹنے میں مگن ہے ۔الیکشن کے آخری سال پھر کہیں سے شوشا چھوڑ دیا جائے کہ جنوبی پنجاب میں الگ صوبہ بنانا ہو گا ۔
ابھی تک عام پاکستانیوں کے لیے آپ کے وزیرہ مشیروں نے کوئی خیر کی خبر نہیں دی ہے ۔عثمان بزدار ایک متوقسط طبقے کا بند ہ ہے ۔
اب آپ کے پاس صرف یہی چوائس ہے کہ جناب عمران خان صاحب منتخب وزیر اعلیٰ کو مضبوط کریں نہیں
تو دوبارہ کوئی نیا وزیر اعلیٰ لانے کی کوشش میں نمبر پورے کرنا مشکل بھی ہو سکتا ہے ۔
تحت لاہور آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔آج اپنے ساتھیوں کو سمجھائیں کہ تنکوں کے سہار ے کھڑی حکومت کو تیز ہواوں کے حوالے نہ کریں ۔ابھی ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں ۔جناب یاد رکھیے گا کہ پنجاب کے لوگ ہر نئے بندے کو خوش آمدید ضرور کہتے ہیں ۔سر پہ بٹھاتے ہیں ،عزت دیتے ہیں لیکن کسی بھی طاقتور سے طاقتور حکمراں کو لمبا عرصہ کسی صورت برداشت نہیں کیا کرتے۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں