میرا میانوالی -----------------------
میانوالی کی جو اچھی روایات اب تک زندہ ھیں ، ان میں ایک بہت اچھی روایت احسان شناسی ھے - آپ میانوالی کے کسی آدمی کا کوئی معمولی سا کام کردیں ، وہ ھمیشہ یاد رکھے گا ، اور کسی نہ کسی طرح آپ کو اس احسان کا صلہ دینے کی کوشش ضرور کرے گا -
چند سال پہلے کی بات ھے ، میں اپنے بیٹے ارشدعلی کے ساتھ سرگودھا سے میانوالی آرھا تھا - ھم بس سٹیڈ کے ایک ھوٹل میں بیٹھے چائے پی رھے تھے تو سامنے پٹرول پمپ ہر نیوخان کمپنی کی ایک بس آکر رکی - کنڈکٹر کوئی چیز لینے کے لیے ھوٹل میں داخل ھؤا تو اس کی نظر ھم پر پڑی - وہ سیدھا ھماری طرف آیا اور سلام کر کے کہنے لگا “ سر، میانوالی جا رھے ھیں آپ ؟ “
میں نے کہا جی ھاں -
اس نے کہا “سر آپ اطمینان سے چائے پی لیں - میں آپ کا سامان بس میں رکھ کر آپ کے لیے سیٹوں کا بندوبست کرتا ھوں “
یہ کہہ کر اس نے ھمارا بیگ اٹھایا اور بس کی طرف چل دیا - میں اسے نہیں جانتا تھا ، مگر وہ مجھے جانتا تھا -
بس میں کوئی سیٹ خالی نہ تھی - اس نے دو سواریوں کو فولڈنگ سیٹوں پہ بٹھا کر ھمیں سیٹیں فراھم کر دیں -
میں نے اس نوجوان سے کہا " بیٹا ، کیا آپ میرے سٹوڈنٹ رھے ھیں ؟"
اس نے کہا “ نہیں سر، میں تقریبا ایک سال پہلے اپنے کچھ کاغذات کی تصدیق کرانے کے لیے آپ کے پاس آیا تھا - میری آپ سے کوئی واقفیت بھی نہ تھی ۔ پھر بھی آپ نے فورا میرا کام کر دیا تھا - بے شک آپ مجھے نہیں جانتے ، مگرمیں آپ کا یہ احسان کیسے بھول سکتا ھوں ؟“
اللہ اکبر !!!! ----- میں نے صرف کاغذات پر دستخط کرکے مہر لگا دی تھی - ایک منٹ کاکام تھا - مگر اس نوجوان نے یہ معمولی سا احسان بھی یاد رکھا، اور اس کا صلہ دینا ضروری سمجھا -
----------------------------------------------- رھے نام اللہ کا --------------------------------------------
------ منورعلی ملک ------
میانوالی کی جو اچھی روایات اب تک زندہ ھیں ، ان میں ایک بہت اچھی روایت احسان شناسی ھے - آپ میانوالی کے کسی آدمی کا کوئی معمولی سا کام کردیں ، وہ ھمیشہ یاد رکھے گا ، اور کسی نہ کسی طرح آپ کو اس احسان کا صلہ دینے کی کوشش ضرور کرے گا -
چند سال پہلے کی بات ھے ، میں اپنے بیٹے ارشدعلی کے ساتھ سرگودھا سے میانوالی آرھا تھا - ھم بس سٹیڈ کے ایک ھوٹل میں بیٹھے چائے پی رھے تھے تو سامنے پٹرول پمپ ہر نیوخان کمپنی کی ایک بس آکر رکی - کنڈکٹر کوئی چیز لینے کے لیے ھوٹل میں داخل ھؤا تو اس کی نظر ھم پر پڑی - وہ سیدھا ھماری طرف آیا اور سلام کر کے کہنے لگا “ سر، میانوالی جا رھے ھیں آپ ؟ “
میں نے کہا جی ھاں -
اس نے کہا “سر آپ اطمینان سے چائے پی لیں - میں آپ کا سامان بس میں رکھ کر آپ کے لیے سیٹوں کا بندوبست کرتا ھوں “
یہ کہہ کر اس نے ھمارا بیگ اٹھایا اور بس کی طرف چل دیا - میں اسے نہیں جانتا تھا ، مگر وہ مجھے جانتا تھا -
بس میں کوئی سیٹ خالی نہ تھی - اس نے دو سواریوں کو فولڈنگ سیٹوں پہ بٹھا کر ھمیں سیٹیں فراھم کر دیں -
میں نے اس نوجوان سے کہا " بیٹا ، کیا آپ میرے سٹوڈنٹ رھے ھیں ؟"
اس نے کہا “ نہیں سر، میں تقریبا ایک سال پہلے اپنے کچھ کاغذات کی تصدیق کرانے کے لیے آپ کے پاس آیا تھا - میری آپ سے کوئی واقفیت بھی نہ تھی ۔ پھر بھی آپ نے فورا میرا کام کر دیا تھا - بے شک آپ مجھے نہیں جانتے ، مگرمیں آپ کا یہ احسان کیسے بھول سکتا ھوں ؟“
اللہ اکبر !!!! ----- میں نے صرف کاغذات پر دستخط کرکے مہر لگا دی تھی - ایک منٹ کاکام تھا - مگر اس نوجوان نے یہ معمولی سا احسان بھی یاد رکھا، اور اس کا صلہ دینا ضروری سمجھا -
----------------------------------------------- رھے نام اللہ کا --------------------------------------------
------ منورعلی ملک ------
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں